النہایہ ڈرامہ سیریل اور اسرائیل کی چینخیں

النہایہ ڈرامہ سیریل اور اسرائیل کی چینخیں

اسلام علیکم ہم یہ دور ہے فائیو جنریشن وار کا جس میں نہ تو کوئی ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے اور نہ ہی کوئی گولا بارود بلکہ صرف اور صرف برین واشنگ نئی نسل کی سوچ کو بدلنے کے لیے جنگ غیر روایتی طریقہ کار کسی میدان کے بجائے سوشل میڈیا پر لڑی جاتی ہے ایک ایسی جنگ کا آغاز یہودی قوتوں اور اسلام کے پیروکاروں کے درمیان جاری ہے
جس کی سب سے بڑی وجہ ترک اور مصری ڈرامہ ہیں جس میں اسلام کی حقانیت درست انداز میں واضح کی گئی ہے ارتغل غازی نامی ڈرامے نے اسرائیل اور یورپ کی چیخیں نکلوادیں ہیں تاہم سابق مصری ٹیلی فلم نے بھی اسرائیل کو ہلا کر رکھ دیا ہے اس فلم کو لے کر کیا پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کیا ہی اچھی طرح سمجھنے کے لئے مکمل پڑھیے گا تو چلتے ہیں
معزز قاریین گرامی یہ بات یقینا آپ جانتے ہوں گے کہ چند سال قبل ترکی کے ایک ڈرامہ ارطغرل نے دنیا بھر کے مسلمانوں 
کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں کی بھی توجہ حاصل کی تھی

النہایہ ڈرامہ سیریل اور  اسرائیل کی چینخیں



دراصل اس ڈرامے کی مدد سے یورپی اور غیر مسلم نوجوان نسل کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اسلام اصل میں ہے کیا
ڈیجیٹل دور ہونے کے ناطے اس کام کو سرانجام دیا جانا انتہائی ہو چکا تھا کیونکہ فائیو جنریشن وار کے اس حصے کو سب سے پہلے استعمال کرنے والے بھی یہودی اور غیر مسلم ہیں جنہوں نے فلموں اور ڈراموں کی مدد سے اسلام مخالف مواد نشر کیا اور اسے دنیا کے کونے کونے میں پہنچایا جس کو دیکھتے ہوئے ترکی نے اسلام کی صحیح ترجمانی کرنے والے ڈرامے کو ترتیب دیا جسے آج دنیا بھر میں شوق سے دیکھا جا رہا ہے
احباب اگر آپ کو یاد ہو تو گزشتہ سال ستمبر کے مہینے میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے بھی ایک انٹرنیشنل ٹی وی چینل بنانے کا اعلان کیا تھا جس کی مدد سے اسلام کے اصل نقطہ نگاہ کو سمجھا جانا تھا مگر صیہونی اور یہودی حکومتوں نے اس پروجیکٹ کو رکوادیا دنیا کے دیگر ممالک اپنی اپنی سطح پر ایسے اقدامات کر رہے ہیں ترک ڈرامہ ارطغل کے بعد مصر نے ایک ٹیلی فلم ریلیز کی ہے جس کا نام الناہیہ ہے جس میں اسلام کے انٹرویو کو بہترین طریقے سے واضح کیا گیا ہے جبکہ اس ڈرامے میں اسرائیل اور عربوں کی تباہی دکھائی گئی ہے
ڈرامے کی ابتدا اقساط میں دکھایا گیا ہے کہ استاد اسکول میں بچوں کو تاریخ پڑھانے کے دوران کی بتاتے ہیں کہ انیس سو اڑتالیس میں یورپ سے آکر اسرائیل میں آباد ہونے والے یہودی یہودی ریاست کا خواب پورا نہ ہونے پر واپس اپنے آبائی سرزمین یورپ چلے جاتے ہیں شام میں عرب ممالک سے آ کر اسرائیل میں آباد ہونے والے یہودیوں کا ذکر ہی نہیں کیا گیا کہ
وہ اسرائیل کے تباہ ہونے کے بعد کہاں چلے جاتے ہیں

نوٹ

االنہایہ ڈرامہ آل پاک ترک ٹی وی ایپ پر آرہا ہے اردو ترجمہ کے ساتھ ایپ پلے سٹور پر موجود ہے


سو اسی طرح اس ڈرامے میں امریکہ کو بھی بکھرتے ہوئے دکھایا گیا تاہم تاحال امریکا کی جانب سے ڈرامے پر کوئی ردعمل نہیں دکھایا گیا اس ڈرامے میں یہ بھی دکھایا گیا کہ امریکہ نے ہی صیہونی ریاست بنانے کے لیے سب سے زیادہ معاونت فراہم کی اس نے کامیاب ہونے کے بعد اسرائیلی حکومت برہم ہوگئی اور اس نے ڈرامے کے خیال کو ناقابل قبول قرار دیا ہے اسرائیلی وزیر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ ڈرامہ ایک ایسے ملک کی جانب سے بنایا گیا ہے جس کے ساتھ اسرائیل نے امن معاہدہ کر رکھا ہے اور یہ ڈرامہ بنا کر معاہدہ کی خلاف ورزی کی گئی ہے یہ ڈرامہ سائنس فکشن اور کمپیوٹر انجینئرنگ جیسی ٹیکنیک کو استعمال کرتے ہوئے بنایا گیا ہے ڈرامے کا آغاز یکم رمضان المبارک سے ہوا اور ڈراما پورا مہینہ پرائم ٹائم کے وقت نشر ہوگا

یہ بھی پڑھیں

اس سیریل کی ہدایت قسطوں کو مشرق وسطیٰ میں بہت سراہا جا رہا ہے
یاد رہے کہ مشرقِ وسطیٰ اور خصوصی طور پر مصر لبنان اور مراکش جیسے ممالک میں ماہ رمضان کے حوالے سے خصوصی ڈرامے ریالٹی شوز اور دیگر ٹی وی مواد تیار کیا جاتا ہے ان کے مسلم ممالک میں زیادہ تر لوگ ماہ رمضان میں گھر ہی میں موجود رہتے ہیں اور اس دوران ٹی وی دیکھنے میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ قوتیں کی سے مسلمانوں کو تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہیں
کہا جا رہا ہے کہ مستقبل قریب میں پاکستان ترکی مصر اور دیگر اسلامی ممالک مل کر سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز کے حوالے سے کام کریں گے
جن کی مدد سے اسلامو فوبیا کو ختم کرنے میں مدد ملے گی اور یورپ اور امریکہ میں اسلام کے اصل ویژن کو اجاگر کیا جا سکے گا
اگر ایسا ممکن ہوتا ہے تو یہ ایک بہت بڑی جدوجہد ہوگی
لیکن فی الحال اس بات کی توقع ہی کی جا سکتی ہے کیونکہ دیکھا جا رہا ہے کہ جب سے پاکستان میں ارطغرل غازی پی ٹی وی پر نشر ہورہا ہے تب سے ہی کچھ اداکاروں اور بے حیائی کی دکانوں کو چلانے والے ڈراموں کے ڈائریکٹر پروڈوسر نام
نہاد کچھ پارلیمانی لیڈر بھی اپنی زبانییں اس پر دراز کر رہے ہیں

Post a Comment

0 Comments